(ایک نئی سمت)
اعمال 38:2۔
پطرس نے ان سے کہا کہ توبہ کرو اور تم میں سے ہر ایک اپنے گناہوں کی معافی کے لیے یسوع مسیح کے نام پر بپتسمہ لے تو تم روح القدس انعام میں پاؤ گے۔
اس کی روحانی مماثلت کچھ یوں ہے کہ ہم یکطرفہ خطرناک راستہ پر گامزن ہیں۔ اس کی وجہ چاہئے لاعلمی ہو یا سرکشی، پر اس کا انجام خدا سے ابدی جدائی ہے۔ جب تک ہم واپسی کا راستہ اختیار نہیں کرتے (توبہ) اور یسوع کے پیچھے چلنا شروع نہیں کرتے تو ہمارا ہر قدم غلط سمت کی جانب ہے۔ جو ہمیں خدا سے ایک اور قدم کی دوری پہ لے جاتا ہے۔
توبہ، رنج اور پھل:
حقیقی توبہ کا آغاز تب ہوتا ہے جب ہم اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوتے ہیں۔ ’’خدا پرستی کا غم‘‘ (خدا کے حضور کیے گئے گناہوں پر رنجیدگی) بہانے نہیں کرتا بلکہ مکمل ذمہ داری لیتا ہے۔ لوگوں پر، معاشرے پر یا حالات پر الزام تراشی نہیں کرتا۔ یہ ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ گناہ بنیادی طور پر خدا کے مخالف ہے۔ خدا پرستی کے غم سے زندگی کی تبدیلی اور حقیقی توبہ حاصل ہوتی ہے۔
2۔ کرنتھیوں 10:7
کیونکہ خدا پرستی کا غم ایسی توبہ پیدا کرتا ہے جس کا انجام نجات ہے اور اس سے پچھتانا نہیں پڑتا مگر دنیا کا غم موت پیدا کرتا ہے۔
زبور5:32۔
میں نے تیرے حضور اپنے گناہ کو مان لیا اور اپنی بدکاری کو نہ چھپایا میں نے کہا میں خداوند کے حضور اپنی خطاؤں کا اقرار کروں گا اور تونے میرے گناہ کی بدی کو معاف کیا۔
دوسری جانب ’’دنیا کا غم‘‘ صرف بہانے بناتا ہے۔ جبکہ خدا پرستی کے غم سے دل ٹوٹتا ہے اور ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم نے پاک خدا کو ناراض کیا ہے۔ دنیاوی غم کا مطلب ہے کہ پکڑے جانے پر پچھاتا یا گیا کہ نتائج بھگتنے سے غمزدہ ہونا۔ خدا پرستی کے غم اور دنیاوی غم میں بنیادی فرق پھل کا ہے۔ دنیاوی غم کبھی بھی زندگی کو بدلنے والا پھل پیدا نہیں کرتا بلکہ اس سے روحانی موت واقع ہوتا ہے۔
اعمال 20:26۔
’’پہلے دمشقیوں کو پھر یروشلیم اور سارے ملک یہودیہ کے باشندوں اور عیر قوموں کو سمجھاتا رہا کہ توبہ کرو اور خدا کی طرف رجوع لاکر توبہ کے موافق کام کریں۔
متی 8:3۔
پس توبہ کہ موافق پھل لاؤ۔
توبہ اور معافی:
لوقا 15 باب/11 تا 24 آیت میں مسرف بیٹے کی مثال سچی توبہ کی خوبصورت تصویر ہے۔ جب مسرف بیٹے کو ہوش آئی تو اس نے اپنے گناہوں سے منہ موڑا اور باپ کے پاس واپس آگیا۔ اس نے پچھلی زندگی سے مکمل چھوڑ کر (یعنی 180 ڈگری کے زاویے سے گھوم جانا) گناہ آلودہ زندگی اور سرکشی کو ترک کیا۔ اس کے باپ نے تمام تر غلطیوں کو معاف کرکے اسے قبول کیا۔
اعمال 19:3۔
پس توبہ کرو اور رجوع لاؤ تاکہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں اور اس طرح خداوند کے حضور سے تازگی کے دن آئیں۔
اسی طرح سے ہمارا آسمانی باپ بھی معاف کرنے میں وفادار ہے۔ جب ہم گناہوں سے توبہ کرکے اس کے پاس واپس آتے ہیں تو وہ ہمیں معاف کرتا ہے۔ کیا آپ کے کپڑوں پر کبھی کوئی ایسا داغ لگا ہے جو دھونے صاف نہ ہوا ہو؟ کسی ایسے داغ صاف کرنے والے مادے کے بارے میں تصور کریں جو نہ صرف داغ مٹادے بلکہ آپ کے کپڑوں کو نیا کردے۔ ایسا اسی وقت ممکن ہے جب ہم توبہ کریں اور یسوع کو اپنا خداوند اور نجات دہندہ قبول کریں۔ وہ صرف ہمارے دل سے گناہ کے داغ اور اس کی شرمندگی ختم کرتا ہے بلکہ ہمیں ایک نیا دل عطا کرتا ہے۔
1۔یوحنا 9:1۔
اگر اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہماری ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا کرنے میں عادل ہے۔
پچھتاوا نہ ہونا :
توبہ درحقیقت گناہوں کو ترک کرنا اور خداوند (یسوع) کی طرف رجوع لانا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے نیک اعمال اور مذہپبی رسومات پر بھروسہ چھوڑ کر صرف یسوع مسیح پر بھروسہ رکھیں۔ ہم غلط راستہ پر چل رہے تھے لیکن اب ہم درست سمت میں بڑھ رہے ہیں۔ ہم جو اس سے بھاگ رہے تھے، اب اس کے ساتھ چل رہے ہیں۔ توبہ نئی زندگی کی ابتداء ہے۔ اور یہ ہمیں خود غرضی کی دوڑ سے ہٹاکر ہماری زندگی کو خدا کے جلالی مقصد کی راہ پر ڈال دیتی ہے۔ خدا کی طرف رجوع کرنے کا مطلب ہے کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھا جائے اور کوئی پچھتاوا بھی نہ ہو۔
2۔کرنتھیوں10:7۔
کیونکہ خدا پرستی کا غم ایسی توببہ پیدا کرتا ہے جس کا انجام نجات ہے اور اس سے پچھتانا نہیں پڑتا مگر دنیا کا غم موت پیدا کرتا ہے۔
شخصی اطلاق:
1۔ کیا آپ کی زندگی کا سفر نئی مت کی طرف جاری ہے؟
2۔ کیا آپ کی زندگی میں ابھی بھی ایسے گناہ آلودہ حصے ہیں جن کو چھوڑنا مشکل ہے؟
3۔ کیا آپ کی زندگی میں ایسی آزمائشیں اور کمزوریاں باقی ہیں۔ جن کیلئے آپ کو دعا کی ضرورت ہے؟
4۔ کیا آپ اپنے گناہوں کو ترک کرنے کے بعد بھی ان پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔